Color of Books Premium App
Download and Read Free Novels and Books. Advertising
Awais Ahmed
Awais Ahmed @awaisahmed

بہت تیز ہوا چل رہی تھی اور بادل بھی سر پہ سفر کر رہے تھےجب میں بازار سے گھر کے لئے نکلا مجھے یہی ڈر تھا کہ میں کہیں بارش میں بھیگ نہ جاؤں میں نے اپنی سائیکل کی رفتار بڑھا دی میں نے سوچا تھا کہ بادلوں کے برسنے سے پہلے میں گھر پہنچ جاؤں گا مگر سوچ کب ساتھ دیتی ہے آخر وہی ہوا میں گھر پہنچنے سے پہلے ہی بھیگ گیا جب بارش نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا تو پھر میں نے بھی سوچا الله کے بندے اب سائیکل بھگانے کا کوئی فائدہ نہیں جو نہیں چاہتا تھا وہ تو ہو گیا اس لئے اب بہتر ہے سائیکل کی رفتار کم کر لی جائے اس سے پہلے کہ یہ پھسل جائے اور میں اپنی ہڈی پسلی تڑوا لوں تو میں نے سائیکل کی رفتار کم کی اور بھیگا ہوا گھر پہنچا۔جیسے ہی گھر پہنچا ماما نے دیکھتے ہی کہا بارش ہو رہی تھی تو کہیں رک جاتے بھیگ کر آ گئے ہو اور تمہاری بیماری سے مجھے ڈر لگتا ہے پھر جلدی ٹھیک بھی نہیں ہوتے۔ہاتھ میں تولیا پکڑے مجھے خشک کرتے ہی انکی بات ختم ہوئی تو میں نے کہا ماں جی فکر نہ کیا کریں ویسے بھی میں جان بوجھ کر نہیں بھیگا میں نے تو چاہا تھا کہ میں بارش برسنے سے پہلے گھر پہنچ جاؤں مگر شائید بادلوں کو میرا یہ چاہنا پسند نہیں آیا اور انہوں نے مجھے بھگو دیا۔ماما مسکرا دیں۔۔۔کہنے لگیں چلو اب کپڑے بدل لو اور کھانا کھا لو۔ماں کی مسکراہٹ دیکھ کر تو زندگی بن جاتی ہے پھر آپ سب دکھ بھول جاتے ہیں۔میں نے کپڑے بدلے کھانا کھایا اور اپنے بستر میں لیٹ گیا اور فون چلاتے ہی فیسبک سکرول کرنے لگا کہ اتنے میں مجھے بجلی کی زناٹے دار آواز نے ڈرا دیا جو کہ غالبًا کہیں گری تھی ابھی میں اس آواز کے صدمے سے باہر نہیں آیا تھا کہ بجلی بھی بند ہو گئی خیر میں نے ان سب چیزوں سے بے پرواہ ہوتے ہوئے اپنی رضائی اپنے منہ پہ اوڑھی اور پھر فون میں گھس گیا۔ابھی 10 منٹ ہی فیسبک چلائی ہو گی کہ نیٹورک والوں کا میسیج آگیا۔۔۔آپ کا نیٹ پیکج ایکسپائر ہو گیا ہے مزید انٹرنیٹ چلانے کے لئیے اپنا اکاؤنٹ ریچارج کریں شکریہ۔میں نے میسج دیکھتے ہی سر پہ ہاتھ مارا اوہ تیری یہ بھی اب ہی ہونا تھا خیر میں نے فون ایک طرف رکھ کر سونے کا فیصلہ کیا اور فون کو رکھتے ہی میں نے داہنی کروٹ لی ہی تھی کہ پھر بجلی کی گرج نے مجھے ہلا دیا میں نے منہ پر سے رضائی ہٹائی تو ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا میں اچانک سے گھبرا گیا میری گھبراہٹ ابھی کم نہیں ہوئی تھی کہ بجلی نے پھر اپنا زور دکھایا اس بار تو سچ میں ڈر گیا میں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کیا کروں میں اسی کشمکش میں تھا کہ مجھے ایسا لگا جیسے کوئی میرے اندر سے بول رہا ہو۔۔۔۔"زرا سوچو اگر ایسا ہو کے تمہیں تمہاری ہر آسائیش سے دستبردار کر دیا جائے تم سے سب کچھ چھین لیا جائے اور تمہیں ایسے ہی لاوارث چھوڑ دیا جائے تو تم کیا کرو گے۔۔۔یہ جو چیزیں ہیں یہ جو رشتے ہیں اگر سب کچھ تم سے چھین لیا جائے تو کیا کرو گے۔۔۔یہ جو جوانی ہے یہ جو طاقت ہے یہ جو حُسن ہے تم سے لے لیا جائے تو تم کیا کرو گے۔۔۔کبھی سوچا ہے یہ کس کی عطا ہے۔۔۔کبھی سوچا ہے یہ سب فنا ہونے والا ہے اور تم پھر بھی اسے ہمیشہ سمجھتے ہو حالانکہ ہمیشہ کچھ بھی نہیں اس دنیا میں سب عارضی ہے سب کچھ۔۔۔تو پھر تم کیوں بھاگتے ہو اس سے جو ان سب کا خالق و مالک ہے جب کے تمہیں بھی ایک دن اسی کے پاس جانا ہے تم بھی ہمیشہ نہیں ہو۔۔۔جیسے ہی یہ گفتگو ختم ہوئی اچانک میری آنکھیں چندھیا گئیں میں نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں تو بجلی آچکی تھی اور باہر کا موسم بھی قدرے تھم چکا تھا اور میں حیران تھا کہ یہ ہوا کیا۔۔۔۔مگر جو بھی ہوا میں ایک بات سمجھ گیا کہ کچھ بھی یہاں ہمیشہ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

اویس احمد